22 نومبر، 2020

معانیوں کو کھوجنے میں لگ گئی - صہیب مغیرہ صدیقی

معانیوں کو کھوجنے میں لگ گئی

تمام عمر سوچنے میں لگ گئی

کہ ہم کسی مدار میں بھی ہیں یا یونہی چل رہے ہیں بے سبب

ہماری روشنی سے کوئی جسم فیض یاب بھی ہوا کبھی

یا یونہی جل رہے ہیں

بے سبب

جہاں سے پناہ میں جو کہنہ اضطراب ہے

دبے حروف میں یہ کہ چکا ہے بارہا

معانیوں میں کچھ نہیں

یہ کل جہاں سراب ہے

جہاں اضطراب ہے

---

صہیب مغیرہ صدیقی (فیس بک سے) ۔

مکمل تحریر >>

2 جولائی، 2014

تن من وارے بیٹھا ہوں - عبدالرؤف



تن من وارے بیٹھا ہوں

اک عمر گزارے بیٹھا ہوں
بے شعور ی محفل میں بھی
ادب کے مارے بیٹھا ہوں
حق گوئی کی ہے جسمیں سزا
اُس ظلم ادارے بیٹھا ہوں
تو نے جو کرنا ہے، کر لے تو
ترے پاس پیار ے بیٹھا ہوں
میں تو بھائی! مرضی سے اس
’موت کنارے‘ بیٹھا ہوں
تجھ کو ’ایویں‘ شک ہے کہ
میں تیرے سہارے بیٹھا ہوں

(عبدالرؤف)
مکمل تحریر >>

18 جون، 2014

میں عشق الست پرست ہوں، کھولوں روحوں کے بھید​ - علی زریون

میں عشق الست پرست ہوں، کھولوں روحوں کے بھید​
مرا نام سنہرا سانورا، اک سندرتا کا وید​
مری آنکھ قلندر قادری، مرا سینہ ہے بغداد​
مرا ماتھا دن اجمیر کا، دل پاک پٹن آباد​
میں کھرچوں ناخنِ شوق سے ،اک شبد بھری دیوار​
وہ شبد بھری دیوار ہے، یہ رنگ سجا سنسار​
میں خاص صحیفہ عشق کا، مرے پنے ہیں گلریز​
میں دیپک گر استھان کا، مری لو میٹھی اور تیز​
میں پریم بھری اک آتما، جو خود میں دھیان کرے​
میں جیوتی جیون روپ کی، جو ہر سے گیان کرے​
یہ پیڑ پرندے تتلیاں، مری روح کے سائے ہیں​
یہ جتنے گھایل لوگ ہیں، میرے ماں جائے ہیں​
میں دور حسد کی آگ سے، میں صرف بھلے کا روپ​
مرا ظاہر باطن خیر ہے، میں گیان کی اجلی دھوپ​
من مکت ہوا ہر لوبھ سے، اب کیا چنتا؟ کیا دُکھ؟​
رہے ہر دم یار نگاہ میں، مرے نینن سکھ ہی سکھ​
ہیں ایک سو چودہ سورتیں، بس اک صورت کا نور​
وہ صورت سوہنے یار کی، جو احسن اور بھرپور​
میں آپ اپنا اوتار ہوں، میں آپ اپنی پہچان​
میں دین دھرم سے ماورا، میں ہوں حضرت انسان​
(علی زریون)​
مکمل تحریر >>

دِل سا نِگار خانہ کہاں دوسرا بنے - علی زریون

دِل سا نِگار خانہ کہاں دوسرا بنے
جِس میں کہ جو بھی نقش بنے یار کا بنے

ایسی جمالِ یار کی قُدرت کہ کیا کہوں
دِل آپ مُنتظر ہے کہ مِٹ جائے یا بنے

کُچھ بھی نہیں کیا تو ہیں چرچے اِس قدر
کُچھ کَر گیا تو جانئے کیا ماجرا بنے؟

اب سنگ آ رہے ہیں تو کِس فِکر میں ہے تُو
تُو ہی تو چاہتا تھا کہ تُو آئینہ بنے

بننا ہی کچھ اگر ہے تو اِنسان بن مِیاں
یہ بھی ہے کوئی کام کہ بندہ خُدا بنے

اِک غم بنا رہے ہیں مِیاں اپنی طرز پر
ہم دِل شکستگاں سے بھلا اور کیا بنے

یہ حال ہو تو ہمدم و محرم کِسے کریں
خود سے بھی کچھ کہیں تو یہاں واقعہ بنے

یہ بے وفائی ہے تو حقیقت ہے کِس کا نام
جب تُو نہیں ہے اُس کا تو وہ کیوں تیرا بنے

منزل مِلی تو سجدہ کیا اور یہ کہا
اُس پر سلام ہو جو علی راستہ بنے
مکمل تحریر >>

مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر - علی زریون


مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر
اپنا وجود اپنے لیے تو بحال کر

تیرا طلوع تیرے سوا تو کہیں نہیں
اپنے میں ڈوب اپنے ہی اندر زوال کر

اوروں کے فلسفے میں ترا کچھ نہیں چھپا
اپنے جواب کے لیے خود سے سوال کر

پہلے وہ لا تھا مجھ سے الٰہی ہوا ہے وہ
لایا ہوں میں خدا کو خودی سے نکال کر

اس کارگاہ عشق میں سمتوں کا دکھ نہ پال
فکر جنوب اور نہ خوف شمال کر

خواہش سے جیتنا ہے تو مت اس سے جنگ کر
چکھ اس کا ذائقہ اسے چھو کر نڈھال کر

آیا ہے پریم سے تو میں حاضر ہوں صاحبا
لے میں بچھا ہوا ہوں مجھے پائمال کر
مکمل تحریر >>

خدا ایک حل تھا - علی زیون

خدا ایک حل تھا .​
عقائد کی اس افراتفری سے پہلے ،​
خدا ایک حل تھا ..!​
وہ دل جن کا دشت و بیابانِ دنیا کی غربت میں​
کوئی سہارا نہیں تھا !​
وہ آنکھیں !​
جنھیں ریگزارِ مصیبت کی تپتی جھلستی فضاؤں میں​
نخلِ محبّت کا سایا نہیں تھا !​
تو ان سب دلوں ،زخم کھائی جھلستی نگاہوں کی​
سب الجھنوں کا​
سبھی مشکلوں کا فقط ایک حل تھا !​
خدا ایک حل تھا !​
اور اس وقت یوں تھا ،​
زمیں پر ! کہ جب فلسفوں اور عقیدوں کی​
زہریلی کھیتی کا نام و نشاں تک نہیں تھا ،​
یہ مٹی !​
جو اب اپنے ادھڑے ہوئے تن کی "ھیھات حالت " پہ نوحہ کناں ہے !​
یہی زرد و لاچار مٹی بہت مطمئن تھی ..!​
یہی چرخِ اول !​
جو آج اپنی سیار بوڑھی مگر برگزیدہ نگاہوں سے​
وحشت زدہ ہو کے ،​
اہلِ زمیں کی طرف دیکھتا ہے !​
تو یہ چرخِ اول ،یہ نیلا فلک​
اپنی چاہت کا نیلم ،​
محبّت کی بارش لٹاتا تھا ،​
ہنستا تھا ،​
گاتا تھا ..!!​
اور بس وہی وقت تھا جب خدا ایک حل تھا !​
مگر اب ؟؟​
زمیں پر سہولت کی ارزانیاں ہیں !​
وسیلوں دلیلوں کا انبار آدم کے بیٹوں کے پیروں​
کی ٹھوکر پہ ہے​
اور !!​
خدا سے بڑی "کائناتی شکایت" کوئی بھی نہیں ہے ..!!​
وساوس کا بازارِ مرگ اپنی رونق سجائے ،​
دکانیں لگائے ،​
"نظر کن ! کہ ایں جنسِ وحشت چہ ارزاں و عمدہ "​
کی بولی لگائے ،​
ہر اک سو ہر اک جا بر ابر بپا ہے ..!​
اور اس عصرئيے میں !​
خدا ! جو محبّت تھا اور ایک حل تھا ،​
بنی نوعِ آدم کے ہاتھوں سے گر کے کہیں کھو گیا ہے !​
محبّت بہت دیر سے لا پتا ہے۔​
مکمل تحریر >>

لو جنون مزہبی کا بھوت حاضر ہوگیا - عبدالرؤف


لو جنون مذہبی کا بھوت حاضر ہوگیا
اب تو سمجھو آج سے پتھر بھی کافر ہوگیا

نسل انسانی مقید مولوی کی قیدمیں،
یوں چلو انسان انسانوں کا تاجر ہو گیا

میں اکیلا ہی چلا تھا حلقہ افہام کو
عقلمندوں کے کٹہرے جھوٹ حاضر ہوگیا

یوں چلے کھلے ازہان کے میرے دریچے مستقل
ااپنی سوچوں اور جزبوں کا میں آمر ہو گیا

جنت و دوزخ کے لالچ سے جو نکلا ایک دن
دل میرا بھی ذہن کی مانند شاطر ہوگیا

سچ کو کہنے می بھی گھبراہٹ مجھے ہے آجکل
تم جو چاہو تو یہ سمجھو کہ میں قایر ہوگیا

کون مسلم ؟ کون کافر؟ فیصلہ ہوتانہیں،
یا ں تو سب جھوٹے ہیں یارو صاف ضاہر ہوگیا

کب سے بیٹھا تھا خموش محفل شعور میں،
اب تو مانو یا نا مانو! میں بھی شاعر ہو گیا

(عبدالرؤف)
مکمل تحریر >>
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

Blogroll